ناری فاونڈیشن سکھر کے سربراہ افشاں اصغر اورانور مہر نے سگریٹ نوشی ترک کرنے میں تمباکونوشوں کی مدد کےلیے طبی مراکز قائم کرنے، انہیں خدمات و سہولیات فراہم کرنے اور اس سلسلے میں والدین سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سگریٹ نوشی سے پاک پاکستان کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار آلٹرنیٹیو ریسرچ انی شیٹیو (اے آر آئی) کے تعاون سے تماکونوشی کے خاتمے کے سلسلے میں تحصيل صالح پٹ ضلع سکھر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا۔ انور مہر نے کہا کہ سگریٹ نوشی محض صحت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرے، معیشت اور آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان میں تین کروڑ دس لاکھ افراد مختلف شکلوں میں تمباکونوشی کرتے ہیں۔ انہیں اس عادت سے چھٹکارا دلانے کےلیے طبی مراکز قائم کرنے چاہیئں اور والدین سمیت معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار کرنا چاہیے۔سماجی کارکن عبالوحيد اور ايجوکيشنسٹ حيدر علی نے کہا کہ سگریٹ نوشی کے تدارک کےلیے قوانین بنائے گئے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کا فقدان ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان سے سگریٹ نوشی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا حکومت تمباکونوشوں کو طبی مدد اور کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کے استعمال کے بارے میں آگہی فراہم کرے تو سگریٹ نوشی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ناری فاونڈیشن کی پروگرام مينيجر شازيا عباسی نے کہا تمباکونوشی سے ہونے والی بیماریوں اور اموات سے ملک کو ایک سال میں 615 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمباکو سے پاک پاکستان کے حصول کےلیے ہمیں معاشرے میں سگریٹ نوشی کے نقصانات پر قابو پانے کےلیے سویڈن جیسی کامیاب بین الاقوامی مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا حکومت کو کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کے استعمال کےلیے قواعد و ضوابط بنانے چاہیے تاکہ سگریٹ نوشی ترک کرنے میں تمباکونوشوں کی مدد ہو سکے اور بچوں سمیت سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد کو ان مصنوعات کے استعمال سے دور رکھا جا سکے۔ناری فاونڈیشن سکھر کی سربراہ افشاں اصغر نے کہا کہ حکومت تمباکونوشی ترک کرنے کےلیے متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ معاشرے میں سگریٹ کی دستیابی اور اس تک رسائی لوگوں کےلیے ممکن نہ رہے۔ انہوں نے کہا والدین کو اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔